وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ موسم، جانور، پودے اور ہماری زمین کی شکل مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارا سیارہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ گلیشیئر سکڑ رہے ہیں، سمندری برف پگھل رہی ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، پودوں اور جانوروں کے رہن سہن کے طریقے بدل رہے ہیں، اور گرمیوں کی شدت ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ موسم اور درجہ حرارت میں تبدیلی کوئی نئی بات نہیں، لیکن جس تیزی سے اب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، وہ سائنس دانوں کے لیے باعث تشویش ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں یہ تیز رفتار تبدیلیاں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کو ہوا دے رہی ہیں۔ جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی اور صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرمی گلوبل وارمنگ کو بڑھا رہی ہے۔ سائنس دانوں نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کو کم کرنے کے لیے شجرکاری کو ایک اہم حل قرار دیا ہے۔
درخت نہ صرف فطرت بلکہ انسانوں کی بقا کے لیے بھی ضروری ہیں۔ ہم انہیں کھانے، ایندھن اور مختلف اشیاء بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن اس استحصال سے جنگلات کی کٹائی بڑھتی ہے، جو رہائش گاہوں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، سڑکوں اور نقل و حمل کے نظام کی تعمیر کی وجہ سے بڑے پیمانے پر درخت کاٹے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھا اور گرمیوں کا دورانیہ لمبا ہوا۔
شہری ترقی کے لیے سرکاری اور نجی شعبے ہر روز درخت کاٹ کر نئی سوسائٹیاں اور سڑکیں بنا رہے ہیں۔ جب ہم زمین کو ترقی کے نام پر ویران کرتے ہیں، درخت ہی اس تباہی کو روکنے کی کنجی ہیں۔ وہ نہ صرف ہوا کو صاف رکھتے ہیں اور فوٹوسنتھیسز کے ذریعے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
درخت فوٹوسنتھیسز کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ جنگلات کی کٹائی سے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ کاٹے گئے درخت سڑ کر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں، اور ان کی صنعتی پروسیسنگ سے آلودگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایشیا اور دیگر خطوں میں جنگلات کی کٹائی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا حصہ ہے۔
ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی سے بارش کی مقدار کم ہو رہی ہے۔ درخت بارش کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، کیونکہ ان کے پتوں سے نکلنے والا بخارات بارش کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کے جنوبی علاقوں، جیسے کہ سندھ کے پانچ اضلاع اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں پانی کی کمی اور خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ زیادہ درخت لگانے سے بارش کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
صنعتوں اور زراعت کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی کے علاوہ، آبی وسائل کی کمی بھی درختوں کے لیے خطرہ ہے۔ اس سے رہائش گاہوں کا نقصان ہوتا ہے، جو حیاتیاتی تنوع کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے کئی انواع معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے انواع دس گنا تیزی سے غائب ہو رہی ہیں۔ کچھ مطالعات یہ بھی کہتی ہیں کہ ہم چھٹے بڑے پیمانے پر معدومیت کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی اور رہائش گاہوں کا نقصان ہے۔
ایک ہیکٹر اشنکٹبندیی جنگل میں پودوں کی سینکڑوں اقسام اور ایک درخت میں چیونٹیوں کی درجنوں اقسام ہو سکتی ہیں۔ زمینی پودوں اور جانوروں کا 90 فیصد حصہ جنگلات میں پناہ لیتا ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول کو بچانا چاہتے ہیں، تو ہمیں جنگلات کی حفاظت اور شجرکاری کو ترجیح دینی ہوگی۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "زمین کو بچانے کی ضرورت۔۔۔کسان دوست"