Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

اونٹ کا دودھ: صومالیہ کی نئی معیشت کا ستون

 صومالیہ میں اونٹ کے دودھ کی پیداوار کا انقلاب  :روایتی ورثے سے جدید معیشت تک 
صومالیہ میں اونٹ کے دودھ سے معاشی انقلاب 

 اونٹ صدیوں سے صومالیہ کی ثقافت، معیشت اور روزمرہ زندگی کا اہم حصہ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف خوراک اور نقل و حمل کا ذریعہ رہے ہیں بلکہ مقامی لوک کہانیوں اور روایات کا بھی جزوِ خاص ہیں۔ مگر اب، دارالحکومت موغادیشو کے نواح میں واقع صحرائی علاقے ایک خاموش زرعی انقلاب کا منظر پیش کر رہے ہیں — جہاں اونٹ صرف کارواں نہیں، بلکہ معیشت کی نئی راہوں کے راہی بن چکے ہیں۔

بدر اونٹ فارم ، روایت اور ترقی کا سنگم

جون کی ایک خوشگوار بدھ کی صبح، ایسوسی ایٹڈ پریس کی ٹیم نے بدر اونٹ فارم کا دورہ کیا، جو موغادیشو کے گرد و نواح میں ابھرتے ہوئے اونٹ دودھ فارموں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں درجنوں اونٹ دھیمی چال میں باڑوں میں گھوم رہے تھے، کچھ تازہ چارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور چرواہے ان کی نگرانی میں مصروف تھے۔ قریبی شیڈ میں کارکن بڑی احتیاط سے اونٹوں کو دوہ رہے تھے، اور تازہ جھاگ دار دودھ کو صاف کنٹینروں میں جمع کر رہے تھے۔

اونٹ کے دودھ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر مقامی کاروباری حضرات کی نئی لہر کے باعث، جو روایتی وسائل میں چھپی معاشی طاقت کو دریافت کر رہے ہیں۔

زیادہ دودھ کی پیداوار نئی ٹیکنالوجی، بہتر نتائج

صومالیہ میں دنیا کے سب سے زیادہ اونٹ پائے جاتے ہیں- اندازاً 70 لاکھ سے زائد ،مگر ماضی میں اونٹ کے دودھ کی بہت کم مقدار ہی شہری مارکیٹوں تک پہنچ پاتی تھی۔ اس صورت حال کو بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق میر ہاشی نے، جو ویٹرنری ڈاکٹر اور بدر فارم کے مینیجر ہیں۔

ڈاکٹر ہاشی کے مطابق:

 "صومالی لوگ اپنے اونٹ پالنے کے ورثے پر فخر کرتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ طریقۂ کار میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔"

بدر فارم میں ہر اونٹ روزانہ 10 لیٹر تک دودھ دے رہا ہے جو روایتی طریقوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اس کامیابی کا سہرا بہتر ویٹرنری کیئر، غذائیت سے بھرپور چارے، اور جدید دودھ نکالنے کے طریقوں کو جاتا ہے۔
 بدر فارم کی کامیابی

بدر اونٹ فارم کے سی ای او جامع عمر کا کہنا ہے:

 "ہم 2006 میں ان چند اولین افراد میں شامل تھے جنہوں نے تجارتی سطح پر اونٹ کے دودھ کی پیداوار شروع کی۔ آج ہمارا مارکیٹ شیئر تقریباً 40 فیصد ہے۔"

یہ فارم 200 سے زائد مستقل ملازمین کو روزگار فراہم کرتا ہے، جب کہ فصل کی بوائی اور کٹائی جیسے مواقع پر موسمی ورکرز بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

اونٹ کے دودھ سے دہی (پراسز کرنا ) کی صومالیہ میں پہلی فیکٹری

بدر فارم کی سب سے بڑی کامیابی اونٹ کے دودھ سے دہی تیار کرنے والی فیکٹری ہے ۔ جو صومالیہ میں اپنی نوعیت کی پہلی فیکٹری ہے۔ یہاں سفید کوٹ پہنے ماہرین اسٹین لیس اسٹیل کے آلات کے ذریعے دودھ کو خمیر دے کر "بدر" برانڈ کے تحت دہی تیار کرتے ہیں، جو اب موغادیشو کی شہری سپر مارکیٹوں میں فروخت ہو رہا ہے۔

کینیائی نژاد فوڈ انجینئر نیلسن نجوکی گیتھو کے مطابق:

 "اونٹ کے دودھ میں لیکٹوز کی مقدار کم ہوتی ہے، جو کہ لیکٹوز عدم برداشت رکھنے والے افراد کے لیے بہترین ہے۔ اس کے علاوہ اس میں وٹامن سی، آئرن اور زنک کی مقدار بھی گائے کے دودھ سے زیادہ ہوتی ہے۔"

حکومت کی حمایت صنعت کی ترقی کی کلید

صومالیہ کی حکومت نے بھی اس ابھرتی ہوئی صنعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ وزارتِ لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر قاسم عبدی معلم کے مطابق:

 "اونٹ کے دودھ کے فوائد بے شمار ہیں۔ متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں اسے کاسمیٹکس میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ صومالیہ کو بھی مکمل ویلیو چین کو فروغ دینا ہوگا۔"


حکومت نے "ڈیری ایکٹ" متعارف کرایا ہے اور لائیو اسٹاک سیکٹر کی ترقی کے لیے ایک جامع ماسٹر پلان پر کام جاری ہے۔

روایات کی رفتار پر چلتی ترقی

سورج کی روشنی میں چراگاہ سے گزرتے ہوئے اونٹوں کی قطار ایک گہرا پیغام دیتی ہے: صومالیہ میں ترقی اگرچہ دھیمی ہے، مگر ناقابلِ روک ہے۔ صحراؤں سے قافلوں کی صورت سفر کرنے والے اونٹ، آج شہری سپر مارکیٹوں کی زینت بن چکے ہیں ، ایک پیالہ دہی یا دودھ کے ذریعے۔

صومالیہ میں اونٹوں سے جُڑے اس انقلاب نے نہ صرف معیشت کو نئی راہیں دی ہیں بلکہ ایک قدیم روایت کو جدید دور سے ہم آہنگ کر کے دنیا کے سامنے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اگر یہ سفر اسی جذبے سے جاری رہا تو اونٹ کا دودھ صرف ایک مقامی غذائی ذریعہ نہیں، بلکہ عالمی مارکیٹ کا حصہ بن سکتا ہے۔

اس مضمون کا مااخذ اے پی میں شائع ہونے والا عمر فاروق کا مضمون ہے، ویڈیو بھی اسی مضمون سے لی گئی ہے - یہ مضمون صرف موٹیوشنل مقاصد کے لئے شائع کیا جا رہا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں for "اونٹ کا دودھ: صومالیہ کی نئی معیشت کا ستون"