Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

نیلی راوی بھینس: پنجاب کی دھرتی کا گمشدہ خزانہ۔۔۔ابن اعوان


 

بھینس کا تعلق ونڈے سے نہیں، بلکہ دریائے ستلج، راوی اور چناب کے درمیانی علاقوں کے گھنے جنگلات سے ہے، جنہیں نیلی بار اور ساندھل بار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات، جو اب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھینٹ چڑھ کر تقریباً معدوم ہو چکے، کبھی رانجھے کی مجھیاں چرایا کرتے تھے۔ وہی رانجھا، جو دامودار کے قلم سے قرطاس پر امر ہوا۔

نیلی بار اور اس کی بھینس

نیلی بار، جو ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ پر مشتمل ہے، دریائے ستلج اور راوی کے درمیانی علاقے کو کہتے ہیں۔ یہاں کا "بار" انگریزی شراب خانے سے نہیں، بلکہ گھنے جنگل سے مراد ہے۔ نہری نظام سے قبل یہ علاقہ گھنے جنگلوں سے بھرا تھا، جہاں نیلی بھینس چرا کرتی تھی۔ نیلی بھینس اپنی پتلی کھال، سڈول جسم، کھچے ہوئے ڈیل ڈول، پتلے سر اور گول، کڑے نما سینگوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کی ناف بھی نمایاں نہیں ہوتی۔

ساندھل بار اور راوی بھینس

دوسری جانب، ساندھل بار دریائے راوی اور چناب کے درمیانی علاقے کو کہتے ہیں، جو فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، تاندلیانوالہ اور جڑانوالہ پر مشتمل ہے۔ یہاں کی بھینس کو راوی بھینس کہا جاتا ہے، جو اس علاقے کے جنگلات میں چرا کرتی تھی۔

نیلی راوی: ایک نئی نسل

وقت گزرنے کے ساتھ یہ جنگلات ختم ہوتے گئے، اور ہماری لاپرواہی نے خالص نسلوں کو برقرار رکھنے میں کوئی مدد نہ کی۔ نتیجتاً، نیلی اور راوی بھینسیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور آپس میں کراس نسل کشی سے نیلی راوی نامی نئی نسل وجود میں آ گئی۔ آج پورے علاقے میں خالص نیلی یا راوی بھینس ملنا تقریباً ناممکن ہے؛ بس نیلی راوی ہی نظر آتی ہے۔

عالمی پذیرائی اور مقامی زوال

حیرت کی بات یہ ہے کہ نیلی راوی بھینس نہ صرف پاکستان میں مشہور ہے بلکہ اسے چین، بھارت اور سری لنکا جیسے ممالک میں بھی ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ بھینس پنجاب کی دھرتی کا مقامی جانور ہے، جو پنج دریاؤں کی اس سرزمین سے جنم لے کر پروان چڑھا۔ اگر ہم اس کی مناسب دیکھ بھال اور نسل کشی پر توجہ دیں تو یہ یورپ کی ہولسٹائن فریزین یا برطانوی جرسی گایوں کی طرح ہمیں ڈالروں کی برسات کر سکتی ہے۔ مگر افسوس، ناقص بریڈنگ کے باعث اس کی دودھ کی پیداوار میں اضافہ نہ ہو سکا، اور کمرشل بنیادوں پر گائے کے مقابلے میں بھینس کی فارمنگ دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔

رانجھے کا نوحہ

رانجھے کی مجھیاں اب شاید وہی جنگلات ڈھونڈتی ہیں جو اب موجود نہیں۔ اس کی آواز آج بھی گونجتی ہے:

رانجھے مجھیاں چرایاں
ڈولی لے گیئے نی کھیڑے
لگ گئے نین اویڑے۔۔۔!

ایک تبصرہ شائع کریں for "نیلی راوی بھینس: پنجاب کی دھرتی کا گمشدہ خزانہ۔۔۔ابن اعوان"